karachi ki gandi kahani


نعیم بہت تیزی سے گاڑی بھگا رہا تھا ،  سو کے قریب سپیڈ والی سوئی چلی گئی 
تھی ، نعیم اکیلا ہی تھا وہ گاڑی کو چیک کر رہا تھا کہ اب انجن کیسا کام کر رہا ھے پہلے گاڑی پچاس تک بڑی مشکل سے پہنچتی تھی لیکن اب گاڑی ایسے تھی جیسے زیرو میٹر ، میٹر کی سوئی ایک سو بیس تک جا رہی تھی  -نعیم پنجاب پولیس میں ایک ڈرائیور تھا ، آج صبح وہ ڈیوٹی پہ واپس آیا تھا تو اسے پتا چلا تھا کہ کل گاڑی کا کام کروایا گیا ھے  اس لئے وہ چیکنگ کے لئے نکلا تھا باقی ملازم ابھی ناشتہ کر رہے تھے اس لئے وہ اکیلا ہی تھا  – نعیم چیکنگ کے بعد نارمل سپیڈ سے واپس پولیس سٹیشن آ رہا تھا کہ نہر کے پاس اسے کچھ لوگوں  نے رکنے کا اشارہ کیا ، نعیم نے گاڑی روکی تو لوگوں نے اسے بتایا کہ ایک لڑکی خودکشی کرنے لگی تھی اور ہم نے اسے پکڑ رکھا ھے لیکن ہمیں وہ گالیاں دے رہی ھے ، نعیم نے لڑکی کا پوچھا تو وہ ایک طرف کھڑی تھی  اور دو تین مرد اس کے اردگرد کھڑے تھے ، نعیم نے لڑکی کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا تو وہ گاڑی کے دروازے کے پاس آ گئی –
نعیم نے پوچھا کیوں خودکشی کرنے لگی تھیں ؟

 وہ آگے سے خاموش رہی


نعیم نے لوگوں سے پوچھا کہ اسے روکا کس نے تھا ؟ تو ایک آدمی آگے آیا ،
بقول اس کے “کہ لڑکی نے جوتا اتارا اور اپنا دوپٹا اتار کر پل کی دیوار پر رکھا اور دیوار پر چڑھنے لگی تو میں نے اسے پکڑ لیا “-
نعیم نے پوچھا تم اس وقت اس کے پاس کیسے پہنچے ؟
میں وہاں سے گزر رہا تھا میری نگاہ اس پر تب پڑی جب یہ پل پر کھڑی ہوئی ، میرے سامنے اس نے دوپٹا اتارا اور جب جوتا اتار کر اوپر دیوار پر چڑھنے لگی میں اس وقت قریب پہنچ گیا تھا اور اسے پکڑ لیا، اس آدمی نے تفصیل بتائی –
نعیم نے لڑکی سے دوبارہ پوچھا کہ کس وجہ سے مرنے لگی تھیں لیکن وہ خاموش رہی -نعیم نے لڑکی کا جائزہ لیا اس کے اندازہ کے مطابق  لڑکی کی عمر لگ بھگ بائیس سال تھی اور وہ ایک قبول صورت لڑکی تھی ، سانولہ رنگ ، پتلے پتلے ہونٹ ، اور بھاری چھاتی مطلب کہ نسوانی حسن سے مالا مال تھی   اور قد بھی عام عورتوں سے تھوڑا نکلتا ہوا تھا اسے کسی حد تک خوبصورت سمجھا جا سکتا تھا جب نعیم نے دیکھا کہ وہ خاموش ھے اور اس کے سوالوں کا جواب نہیں دے رہی تو اس نے لوگوں سے پوچھا کہ کوئی اس کو جانتا ھے ؟       تو سب نے نفی میں جواب دیا
نعیم نے اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا تو وہ پیچھے بیٹھ گئی ، نعیم نے لوگوں سے پوچھا ساتھ میں کون جائے گا بطور گواہ ؟
کسی نے بھی ساتھ جانے کی حامی نہ بھری ،
لوگ پولیس سے ایسے ڈرتے ہیں جیسے بواسیر والا بندہ سالن میں تیز مرچوں  سے ،
نعیم نے جب دیکھا کہ ساتھ کوئی بھی نہیں جائے گا تو اس نے لڑکی کو آگے افسر والی سیٹ پہ بلا لیا مبادہ پیچھے سے کہیں کود ہی نہ جائے –
لڑکی نعیم کے ساتھ بیٹھ گئی اور نعیم نے گاڑی آگے بڑھا دی ، نعیم نے اس کی طرف دیکھا وہ خاموشی سے ہونٹ کاٹ رہی تھی ، نعیم کی نگاہ اس کی چھاتی پر پڑی جس پر دوپٹا ہٹا ہوا تھا ، لڑکی کی تگڑی چھاتی دیکھ کر نعیم کی پینٹ میں تھوڑی ہلچل ہوئی اور اس کے سات انچ لمبے موٹے لن میں اکڑاہت پیدا ہونا شروع ہو گئی ، نعیم نے اپنا ہاتھ گئیر سے اٹھا کر اپنے لن پہ رکھا اور اسے مسلنے لگا ، لڑکی نے کن آنکھیوں سے نعیم کے ہاتھ کی طرف دیکھا جس سے اس نے اپنا لن پکڑا ہوا تھا اور اسے مسل رہا تھا
نعیم نے جب دیکھا کہ لڑکی نے اسے لن مسلتے دیکھ لیا ھے تو اس نے اپنا ہاتھ وہاں سے اٹھا کر سٹئیرنگ پر رکھ لیا

اس نے لڑکی سے اس کا نام پوچھا
سونیا لڑکی نے آہستہ سے جواب دیا
نعیم نے اس سے پوچھا کیوں مرنا چاہتی ہو ؟
سونیا نے کوئی جواب نہیں دیا سونیا خاموش تھی لیکن نعیم کے ذہن پر سیکس سوار ہو چکا تھا اور اس کے ذہن پر شیطانیت چھا چکی تھی
اس نے سونیا کی طرف دیکھا اس کی جاندار چھاتی اب بھی علیحدہ ہی نظر آ رہی تھی دوپٹا ہٹا ہوا تھا ، نعیم نے دوبارہ سے پوچھا سونیا کیوں خودکشی کرنے لگی تھیں ؟
امی سے لڑائی ہوئی تھی اسلئے مرنا چاہتی تھی سونیا نے اھستگی سے جواب دیا،
ابھی تمہاری عمر ہی کیا ھے ، تم نے ابھی دیکھا ہی کیا ھے اس دنیا میں ؟(نعیم کا ہاتھ سٹیئرنگ سے گئیر پر )  یہ دنیا بہت خوبصورت ھے   تمہیں شاید ابھی اس کا احساس نہیں ھے – یہ کہتے ہوئے اس کا ہاتھ سونیا کے ران پر رینگ گیا
سونیا کی نرم ران پر نعیم کا ہاتھ آھستگی سے حرکت کرنے لگا ، سونیا ایسے تھی جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو ، اس کی طرف سے کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں تھی کوئی روک نہیں تھی لیکن چہرے پہ اقرار کا بھی کوئی شائبہ تک نہیں تھا ایسے لگتا تھا جیسے اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس قسم کا ردعمل ظاہر کرے
 
 

 گھر سے وہ خودکشی کرنے نکلی تھی اور پھر پولیس کی گاڑی میں پولیس والا اپنی حد سے بڑھ رہا تھا لیکن دماغ پہ بےحسی چھائی ہوئی تھی لیکن اس کی بے حسی اسوقت ختم ہو گئی جب نعیم کا ہاتھ اھستگی سے اس کی رانوں کے درمیان اس کے سوراخ کی طرف بڑھا اور اس کے سوراخ کے دیواروں کو  نعیم کی انگلیوں نے چھوا تو اس کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور کرنٹ کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی اور سونیا نے بے اختیار نعیم کا ہاتھ پرے دھکیل دیا سونیا ہوش کی دنیا میں واپس آ چکی تھی -‏

نعیم نے اس کی طرف سے مزاحمت محسوس کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی رانوں کی طرف دوبارہ نہ بڑھایا –
نعیم پہلے اسے باتوں سے رام کرنا چاہتا تھا          اسے پتا تھا کہ یہ ابھی جذباتی ھے اور خودکشی کرنے آئی تھی  ایسے میں کوئی مسلئہ ہی کھڑا نہ کر دے اور اسے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں –
نعیم نے صدیوں پرانا عورتوں کے لئے بنا ہتھیار استمال کرنے کا فیصلہ کیا جس سے عورت عام طور پر چت ہو جاتی ھے جی ہاں آپ صحیح سمجھے اس ہتھیار کا نام ھے تعریف –
سونیا تم بہت حسین ہو ، تمہارا حسن ہی ایسا ھے کہ زاہد  بھی گناہ پر آمادہ ہو جائے ، سوری sorry  میں بہک گیا تھا نعیم نے سونیا پر تعریف کا جال پھینکتے ہوئے کہا –
سونیا بالکل خاموش رہی اس نے کوئی جواب نہیں دیا –
نعیم نے لاگ بک سے پنسل اور ورک لیا اور اس پر اپنا نمبر لکھ کر سونیا کی طرف بڑھایا ، یہ کہتے ہوئے کہ کسی قسم کا کوئی مسلئہ ہو تو تم اس نمبر پر رابطہ کر لینا میں آپ کی ہر طرح کی مدد کروں گا          سونیا تم بہت پیاری ہو ، وہ زندگی جسے تم ختم کرنے جا رہی تھیں اسے میرے نام کر دو

سونیا نے کوئی جواب نہیں دیا وہ خاموش بیٹھی رہی ، سونیا نے نعیم کے موبائل نمبر والا  کاغذ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا ، نعیم نے سوچا سونیا  سے پولیس سٹیشن میں کوئی اس کاغذ کے بارے میں ہی نہ پوچھ لے اور اس کا نمبر دیکھ کر اس کے ساتھی اس کا مذاق ہی نہ اڑائیں – نعیم نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے لیا – سونیا نے اس پر بھی کوئی ری ایکشن نہیں دیا اس دفعہ بھی  خاموش تھی –
نعیم نے اسے اپنا نمبر زبانی بتایااور دو تین دفعہ دوہرایا ، اس دوران پولیس اسٹیشن آ گیا اور نعیم سونیا کو لے کر انچارج کے کمرے میں چلا گیا –
 انچارج ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا اور شوگر کا مریض تھا اسلئے وہ عورتوں کو شہوت بھری نظروں سے دیکھنے کے قابل نہیں رہا تھا اس نے سونیا کو سرسری نظروں سے دیکھا اور نعیم سے پوچھا کہ یہ کون ھے ؟
یہ خودکشی کرنے لگی تھی اور بس چند لمحے  دیر ہو جاتی تو اس وقت یہ آپ کے سامنے کھڑی نہ ہوتی باجوہ صاحب نعیم نے انچارج کو بتایا – یہ نہر والے پل پر سے کودنے لگی تھی کہ ایک آدمی نے پیچھے سے پکڑ لیا اور میرے حوالے کر دیا میں اسے آپ کے پاس لے آیا ھوں
 باقی کی قانونی کاروائی آپ کی بوریت کا سبب بن سکتی ھے اسلئے حذف کر رہا ھوں لیکن ایک دلچسپ بات آپ کو بتاتا چلوں کہ خودکشی واحد جرم ھے جس کی تکمیل پر مجرم کو سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ کہ سزا زندہ افراد کے لئے ھے –
لڑکی کا معاملہ تھا اسلئے اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی اور اسے اس کے والدین کے حوالے کر دیا گیا –   
ایک دو دن تک سونیا نعیم کے حواس پر چھائی رہی اور پھر ایک نائکہ کے پاس نئی آئی لڑکی کے ساتھ رات گزارنے کے بعد سونیا نعیم کے ذہن سے نکل گئی –
اس واقعہ کے تقریبا دس سے پندرہ دن بعد رات دو بجے کے قریب نعیم کے موبائل پر ایک انجان نمبر سے کال آئی ، آواز لڑکی کی تھی  –
آپ کون ؟ لڑکی نے نعیم سے پوچھا
سونیا کی اپنی امی سے کسی بات پر تکرار ہوئی تھی اس کی امی نے سونیا کو گاؤں کی جاہل عورتوں کی طرح گالیاں دینا شروع کر دی  ایک گالی نے سونیا کو جذباتی کر دیا  کیونکہ اس کے دل میں چور تھا وہ اپنے کزن سے چدوا چکی تھی جب اس کی ماں نے اسے گشتی کہا تو نہ جانے کیوں سونیا کے دل پہ یہ گالی تازیانے کی طرح لگی اور وہ جذباتی ہو کر مرنے کے لئے گھر سے نکل آئی ماں نے سمجھا پاس پڑوس کے کسی گھر میں گئی ھے – سونیا نے نہر میں ڈوب کر مرنے کا سوچا اور نہر پہ چلی گئی اس کی زندگی ابھی باقی تھی عین اسوقت جب وہ چھلانگ لگانے کے لئے پل کی دیوار پر چڑھی تو اسے کسی نے پکڑ لیا اور وہ چاہنے کے باوجود بھی مر نہ سکی – لوگوں نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا –  گاڑی میں پولیس والے نے پہلے اپنے لن کو ہاتھ میں لے کر مسلا تھا سونیا نے کن آنکھیوں سے اس کی ساری کاروائی دیکھی تھی اس کا موٹا لمبا لن پینٹ میں پھڑپھڑا رہا تھا اور اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا سونیا اس وقت گبھرائی ہوئی تھی وہ پولیس کی حراست میں تھی اور جو لڑکی ایک دفعہ تھانے کا چکر لگا لے تو اسے معاشرہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا

وہ بہت پریشان تھی کیونکہ اب بدنامی اس کے ماتھے کا ٹیکہ بننے والی تھی وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ اسے اپنی رانوں پر پولیس والے کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا ، پریشانی نے اس کے ہوش اڑائے ہوئے تھے اس سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کیا کرے
اس دوران پولیس والے کا ہاتھ اس کی چوت کے دانے سے ٹکرایا تو اس کے جسم نے ایک جھرجھری لی اور اس نے اس کا ہاتھ بے اختیار جھٹک دیا لیکن چوت کے دانے پر پولیس والے کے ہاتھ نے اس کے اندر کی عورت کو جگا دیا تھا وہ ساری پریشانی بھول چکی تھی اور دوبارہ سے پولیس والے کی طرف سے جسمانی چھیڑ چھاڑ کی منتظر تھی لیکن اس نے دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہ کی اور باقاعدہ اس سے معذرت کی ، جب اس نے سونیا کے حسن کی تعریف کی تو سونیا کی چوت میں کچھ کچھ ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن بات تعریف سے آگے نہیں بڑھی ، جب پولیس والے نے اسے نمبر والی پرچی دی تو سونیا خاموش رہی اور واپس لینے پر دل میں حیران بھی ہوئی تھی لیکن جب پولیس والے نے اپنا نمبر زبانی دہرایا تو اس کے ذہن میں یہ نمبر فکس ہو گیا تھا – اس وقت اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کا کسی قسم کا پولیس والے سے تعلق بنے گا
تھانے سے جب اس کے ابو اسے گھر لائے تو گھر والوں نے بہت لعنت ملامت کی اور سونیا نے گھر والوں سے ایسے دوبارہ نہ کرنے کا وعدہ کر لیا –
اسی رات سونیا سوئی تو خواب میں اس پولیس والے کو دیکھا – سونیا اور وہ سیکس کر رہے تھے اس کا موٹا تازہ لن جب اس کی چوت میں ایک جھٹکے سے داخل ہوا تو ایک چیخ سونیا کے منہ سے نکلی اور اس کی آنکھ کھل گئی سونیا کی چوت گیلی ہو چکی تھی    اس کی ماں نے پوچھا کیا ہوا سونیا ؟
خواب میں ڈر گئی تھی سونیا نے اپنی امی سے کہا  – کمرے کی لائٹ آن on تھی اور سونیا اپنے بستر میں تھی، کوئی مشکوک بات نہ تھی   اسلئے اس کی ماں نے کہا بیٹی کچھ پڑھ کر سویا کرو ، یہ کہہ کر اس کی ماں نے دوسری طرف کروٹ لے لی –
لیکن سونیا کی نیند اڑ چکی تھی ، یہ نہیں تھا کہ سونیا نے پہلے کبھی سیکس نہیں کیا تھا، سونیا پہلے اپنے کزن کے ساتھ سیکس کر چکی تھی ،
ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک دن سونیا کا کزن ان کے گھر آیا گھر میں کوئی نہیں تھا سوائے سونیا کے – سونیا کے کزن نے اس دن سونیا سے زومعنی مذاق کئے تھے لیکن عملی طور پر کوئی حرکت نہیں کی تھی ، سونیا جوان تھی تنہائی میں جب اس کا کزن آیا
تو اس کا ذہن پراگندہ ہو گیا تھا اور وہ سیکس پر بھی آمادہ تھی لیکن کزن کی بدقسمتی کہ وہ نہ سمجھ سکا اور اس کے جانے کے بعد تھوڑی ہں دیر بعد اس کا دوسرا کزن آ دھمکا تھا اس نے تنہائی اور موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سونیا کے ممے پیچھے سے آ کر پکڑ لئے جب وہ کچن میں اس کے لئے چائے بنا رہی تھی   سونیا نے معمولی سی مزاحمت کی اور پھر اس کی بانہوں میں سما گئی ، وہ سونیا کو کمرے میں لے گیا وہاں  اس نے سونیا کے مموں کو اتنا چوسا تھا کہ  اگلے دن تک بھی لالگی نہیں گئی تھی        پھر جب اس نے سونیا کی شلوار اتار کر اس کی چوت پہ اپنا لن رکھا تھا تو سونیا کے جسم میں مزے کی لہریں گردش کرنا شروع ہو گئی تھیں اور مزے کی یہ لہریں اس وقت تھم گئیں جب سونیا کے کزن نے اس کی چوت کے سوراخ کو ایک جھٹکے سے کھول دیا  اور اس کے کنوارے پن کی جھلی کو بیدردی سے  پھاڑ دیا جس سے سونیا کو ایسے لگا تھا جیسے اس کی پھدی میں کسی نے کوئی تیر چھوڑ دیا تھا بے اختیار اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی اور پھدی سے خون

تیز جھٹکوں سے سونیا کی بیدردی سے چدائی کی تھی جس میں مزا بالکل بھی نہیں اور صرف درد ہی درد تھا ، اس چدائی کے بعد سونیا نے سیکس سے توبہ کر لی تھی اور دوبارہ اپنے اس کزن کو موقع نہیں دیا تھا –
 پولیس والے نے دو سالوں کے بعد دوبارہ سے اسے کے جسم کی  آگ پر تیل پھینک دیا تھا اور وہ دوبارہ سے سیکس کے لئے آمادہ ہو گئی تھی ، اس کے پاس پولیس والے کا نمبر تھا لیکن بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی لیکن پھر ایک رات اس نے پولیس والے کا نمبر ڈائل کر ہی دیا ،  پولیس والے سے سونیا نے پوچھا آپ کون ؟
نعیم لڑکی کی آواز وہ بھی رات میں سن کر حیران رہ گیا ، اس نے کہا
 میں نعیم ھوں  –
آپ ؟
سونیا نے کہا میں بتاتی ھوں پہلے آپ بتاؤ آپ جاب کیا کرتے ہیں ؟
میں پولیس میں ہوتا ھوں –
میں سونیا جس کو آپ نہر والے پل سے پولیس سٹیشن لے کر گئے تھے –
اچھا وہی خودکشی والی ؟
جی میں وہی ھوں ؟ سونیا نے کہا –
نعیم آپ کیسی ہیں ، آپ تو جا کر بھول ہی گئیں ؟
اگر بھولی ہوتی تو کال کیسے کرتی آپ کو ؟ آپ سنائیں پولیس والے کیسے ہیں آپ ؟
میں ٹھیک ھوں آپ سناؤ ؟
میں بھی ٹھیک ھوں ، ویسے آپ بہت شرارتی ہیں پولیس والے ، سونیا نے کہا  –
  اسطرح نعیم اور سونیا میں دوستی ہو گئی ، یہ دوستی بے تکلفی میں بدل گئی اور پھر نعیم نے سونیا سے پوچھا ،
جان و نعیم آپ کا نمبر کیا ھے ؟
سونیا ہنستے ہوئے جوتے کا ؟
نعیم نے بھی ایک قہقہ لگایا اور کہا نہیں جی آپ کی نرم و گداذ چھاتی کا –
سونیا : آپ نے کب اس کا گداذ دیکھا ؟
 
 
  
دیکھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور دور سے ہی پہچان لیتے ہیں آپ تو بالکل میرے ساتھ بیٹھیں تھیں گاڑی میں اور دوپٹہ بھی ہٹا ہوا تھا ، سچ پوچھو تو اس دن آپ کی چھاتی دیکھ کر ہی میرے بدن میں گرمی چڑھ آئی تھی نعیم نے کہا –
سونیا نے کہا جی مجھے پتا ھے آپ بہت بدتمیز ہو ،  ویسے آپ کی نوکری بہت مزے کی ھے –
جی ہاں بہت مزے کی ھے – بیس ہزار تنخواہ ھے گھر کا ماہانہ خرچ بچوں کی فیس،  بجلی گیس کا بل بھی ان بیس ہزار میں ، بیوی بچے بیمار ہو جائیں تو ان بیس ہزار میں سے ہی علاج کروانا پڑتا ھے ، والدین میں سے کوئی بیمار ہو تو بھی ان بیس ہزار میں علاج کروانا پڑتا ھے
حکومت نے کوئی سہولت نہیں دی ایک تنخواہ کے علاوہ اور تنخواہ بھی اتنی زیادہ کہ دس دن نہیں چلتی ،  مزے کی بات  یہ ھے کہ بنک والے بھی پولیس کو لون loan نہیں دیتے بہت سارے پولیس والوں کے گھر والے اس لئے مر جاتے ہیں کہ ان کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں ہوتے اور حکومت کی طرف سے ایسی کوئی سہولت بھی نہیں ھے کہ اپنا یا گھر والوں کا علاج کروا سکیں ، نعیم کی تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ درمیان میں سونیا بول پڑی
پولیس والے تم تو سرئیس ہی ہو گئے میں نے تو ایسے ہی بات کی تھی
میں بھی آپ کو ایسے ہی بتا رہا ھوں تاکہ تمہیں پتا چل سکے کہ ہم کتنے مزے میں ہیں
نعیم نے سونیا سے کہا اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے : بس سونیا مجبوری میں نوکری کر رہے ہیں ورنہ کوئی حال نہیں پولیس والوں کا ، ہم سے تو ریڑھی والے اچھے ہیں جو اپنی مرضی تو کر سکتے ہیں ہم عید والے دن بھی ڈیوٹی پہ ہوتے ہیں گھر والوں کے ساتھ عید بھی نہیں منا سکتے  ،
پولیس والے اب بس بھی کرو سونیا نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ،
نعیم ذرا پھر سے کہنا
کیا ؟ سونیا نے پوچھا –
پولیس والے
آپ کے منہ سے بہت اچھا لگتا ھے ایک دم سٹائلس نعیم نے کہا ،
پولیس والے ،
پولیس والے ،
پولیس والے ،
پولیس والے ،
پولیس والے ، سونیا نے ایک ہی سانس میں چار پانچ دفعہ بول دیا –
نعیم ایسے نہیں ، تو پھر کیسے سونیا نے کہا ؟ نعیم چھوڑو ان باتوں کو – میں نے تم سے تمہارا نمبر پوچھا تھا ؟
 چھتیس کا برا پہنتی ھوں سونیا نے کہا،
وڈے وڈے ممے پتا نہیں کب ہاتھ میں آئیں گے ؟ نعیم نے اسکی چدائی کے عزائم ظاہر کرتے ہوئے کہا
 

سونیا اور نعیم بے تکلفی  سے آگے نکل چکے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کرنا چاہتے تھے اسلئے وہ دونوں بہت بولڈ ہو چکے تھے  – سیکس جذبات کا اظہار  فون پر اور سیکس کی خواہش پوری کرنے کے ایکدوسرے سے ملنے کے لئے انہیں بے چین کیے ہوئے تھی نعیم نے اس کے ممے پکڑنے کی خواہش کا اظہار سونیا سے اسلئے کیا تھا  تاکہ واضح ہو سکے کہ سونیا کی چوت سے لطف اٹھانے کے لئے اسے کتنا انتظار کرنا پڑے گا – 
 میرے ممے تمہارے ہاتھ میں کیوں پولیس والے ؟ سونیا نے مسکراتے ہوئے کہا –
سونیا ہاتھوں میں نہیں تو پھر منہ میں سہی ، اب تو کوئی اعتراض نہیں ؟ نعیم نے بے تکا سا جواب دیا –
سونیا نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا پولیس والے بہت جلد میں تم سے ملنے آؤں گی ،
ایسے ہی باتوں سے نعیم اور سونیا کا وقت گزرتا رہا اور پھر ایک دن سونیا نے نعیم سے کہا ،
میں کل بازار آ رہی ھوں اپنی سہیلی کے ساتھ ، اس نے بھی اپنے یار سے ملنا ھے ، ہم کل صبح دس بجے گھر سے نکلیں گی اور رکشہ سے  صدر چوک اتریں گی ، تم سوا دس بجے صدر چوک میرا انتظار کرنا –
 نعیم نے اسے دس بجے صدر چوک ملنے کا وعدہ کیا
نعیم کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے سونیا نے بالاخر ملنے کا ٹائم دے دیا تھا ، نعیم نے اپنے دوست کو فون کیا کہ یار مجھے کل اپنے فلیٹ کی چابی دیتے جانا – فراز نعیم کا دوست تھا جو ایک کچی آبادی میں کرائے کے کمرے میں رہتا تھا اور بس کنڈکٹر تھا وہ صبح چھ بجے نکلتا تھا اور شام آٹھ بجے واپس آتا تھا ، نعیم کی اس سے دوستی ایک ایکسیڈنٹ کے دوران ہوئی تھی جب فراز کی بس سے ایک موٹر سائیکل سوار ٹکرا کر زخمی ہوا تھا اور بات پولیس تک پہنچ گئی تھی – وہاں نعیم کو پتا چلا کہ فراز اکیلا رہتا ھے  نعیم خود ایک رنگین مزاج اور عیاش انسان تھا اسلئے اس نے بس والوں کی فیور کی اور اسطرح فراز سے دوستی کر لی  ، بعد میں کافی دفعہ نعیم نے اس کے فلیٹ میں رنگ رلیاں منائی تھیں اور سونیا کی چدائی  بھی فراز کے فلیٹ میں کرنے والا تھا      رات سونیا اور نعیم کی باتیں صبح کی ملاقات سے  متعلق رہیں ، سونیا تھوڑا بہت ڈر رہی تھی جبکہ نعیم اس کا ڈر ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا ،
یہ لن پھدی کا کھیل ایسا ھے جس میں بہت زیادہ رسک ہوتا ھے لیکن کوئی پروا نہیں کرتا ، یہ لڑکی کی قسمت ہے کہ اس کے ساتھ دھوکہ نہ ہو ورنہ تو لڑکی ملنے ایک سے جاتی ھے اور آگے

چار لڑکے ہاتھ میں لن لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور پھر کئی دن چوت کی ٹکور کرتی رہتی ھے ، کبھی ایسا ہوتا ھے کہ چدائی کے دوران اوپر سے کوئی آ گیا اور لڑکی بدنام – آج تک کسی کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ایک لڑکی دن کو کاکروچ سے ڈر جاتی ھے لیکن رات میں اکیلی دو میل پیدل لڑکے سے ملنے چلی جاتی ھے ، یہ پھدی عورت کا ڈر کیسے ختم کر دیتی ھے ؟
اگلے دن دس بجے سے پہلے ہی نعیم صدر چوک پہنچ گیا ، تھوڑی دیر بعد سونیا اپنی سہیلی کے ساتھ رکشہ سے اتری تو نعیم اس کی طرف چل دیا ، سونیا نے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور بہت تازہ دم لگ رہی تھی ، نعیم نے سونیا کو ساتھ لیا اور بائیک پر پیچھے بٹھا کر چل پڑا – سونیا پولیس والے کیا حال چال ہیں ؟
نعیم نے کہا میں بالکل ٹھیک ٹھاک ھوں تم سناؤ ؟
پولیس والے میں بھی ٹپ ٹاپ ھوں ، تم کب پہنچے صدر چوک ؟ سونیا نے پوچھا –
نعیم دس بجے سے چند منٹ پہلے –
واہ ! کیا بات ھے پولیس وقت سے پہلے پہنچ گئی یہ تو معجزہ ہو گیا ورنہ تو پولیس تو ہمیشہ لیٹ پہنچتی ھے  سونیا نے ہنستے ہوئے کہا-
پولیس وقت پہ پہنچ جائے تو مصیبت اگر لیٹ پہنچے تو بھی مصیبت نعیم نے کہا –
سونیا  وہ کیسے ؟
اگر کسی ڈاکو کو مار دیں بیشک وہ اشتہاری ہو تو عدالت نے یہ نہیں دیکھنا کہ اس پر پہلے سے پچاس پرچے تھے اس نے پولیس سے یہی کہنا ھے کہ  ڈاکو نے فائرنگ کی تو کوئی پولیس والا نہیں مرا اور پولیس کی فائرنگ سے ڈاکو مر گیا  یہ جعلی مقابلہ ھے –  پھر انکوائریاں بھگتو اور عدالت میں خجل علیحدہ سے اور بہت کم افسر ساتھ دیتے ہیں –
اگر پولیس والا مر گیا تو اس کے بیوی بچے رل جاتے ہیں محکمہ دوبارہ اس کے گھر والوں کو پوچھتا تک نہیں ، اس سے بہتر ھے کہ بندہ لیٹ پہنچے ، ڈاکو کبھی نہ کبھی ہاتھ لگ ہی جانے ہیں لیکن یہ زندگی نہیں – نعیم کی تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ سونیا نے اپنی چھاتیاں نعیم کے جسم سے لگاتے ہوئے کہا پولیس والے ایک تو تم سٹارٹ ہو جاؤ تو رکنے کا نام نہیں لیتے اب یہ فضول گفتگو ختم کرو کوئی اور بات کرو  –
سونیا کے نرم و گداذ چھاتیاں جیسے ہی نعیم کے جسم سے ٹکرائیں تو اس کے جسم میں لذت آمیز لہریں حرکت کرنے لگیں اور وہ لیکچر بھول گیا
نعیم نے اپنا جسم پیچھے کر کے اس کی چھاتیاں دبائیں تو سونیا اس سے مزید چپک گئی ، ایسے ہی ایکدوسرے کو اپنے جسموں کا احساس دلاتے ہوئے وہ فراز کے کمرے میں پہنچ گئے –
کمرے میں ایک سنگل بیڈ  ، ایک پرانا سا صوفہ سیٹ  اور کچھ گھریلو استمال کی چیزیں تھیں –
سونیا صوفہ پر بیٹھ گئی اور نعیم نے اندر سے کمرے کی چٹخنی لگا دی ، چٹخنی لگاتے ہوئے نعیم کے ہاتھ اندرونی جوش سے ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے ، چٹخنی لگانے کے بعد نعیم بھی صوفہ پر سونیا کے ساتھ بیٹھ گیا – آنے والے لمحات کا سوچ کر سونیا کا جسم  بھی ہولے ہولے کانپ رہا تھا – نعیم سونیا کے قریب ہوتے ہوئے سونیا سے رومانٹک لہجے میں کیسی ہو میری جان ؟
سونیا جذبات کی شدت سے لرزتی آواز میں
 “میں ٹھیک ھوں “-

نعیم نے اپنا ایک ہاتھ اس کی ران پر رکھتے ہوئے سونیا سے کہا ” آج تم سے میری ملاقات والا سپنا پورا ہو رہا ھے (اس دوران اس کی ران پر آہستہ آہستہ انگلیاں پھیرنا شروع کر دیں) مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم میرے ساتھ ہو ، آج کا دن میری زندگی کا حسین ترین دن ھے کہ دنیا کی خوبصورت لڑکی مجھ سے ملنے آئی ھے ،
“آئی لو یو سونیا “

    نعیم نے یہ کہتے ہوئے سونیا کو سر کے پیچھے گردن پر ہاتھ ڈالتے ہوئے  اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دئیے ، نعیم نے سونیا کے ہونٹوں کو آہستہ آہستہ چومنا شروع کر دیا اس کا اوپر والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا ، نعیم نے اپنی زبان سونیا کے منہ میں کرنے کی کوشش کی تو سونیا نے اپنے دانت جوڑ لئے اور منہ بند کر لیا ، سونیا کو شاید لپس کسنگ پسند نہیں تھی نعیم نے سونیا کے رویہ سے اندازہ لگا لیا اسلئے اس نے سونیا کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کر لئے اور اسے اپنے بازؤں میں اٹھا کر بیڈ پر لے آیا –
بیڈ پر سونیا کو لٹا کر خود اس کے اوپر لیٹ گیا ، سونیا کی چھاتیاں نعیم کے سینے میں دب گئیں اور نعیم سونیا کے چہرے کو چومنے لگا ، نعیم نے اس کی گالوں پر زبان کی نوک پھیرنی شروع کر دی جس سے سونیا کے جسم میں سرور پیدا ہونا شروع ہو گیا اور اس نے اپنا ہاتھ نعیم کے بالوں میں پھیرنا شروع کر دیا ، نعیم نے جب سونیا کی گردن پر اپنے ہونٹ لگائے اور اس کی گرم سانسیں سونیا نے اپنی گردن پر محسوس کیں تو سونیا کو ایسے لگا جیسے مزا اس کی رگ رگ میں سرایت کر گیا ھے نشے کی طرح
اور جب نعیم نے اس کے کان کی لو کو ہونٹوں میں لیا اور دانتوں سے ھلکے سے دبایا تو اب کی بار سونیا یہ برداشت نہ کر سکی اور بالوں کو کھینچ کر اسے اپنی گردن اور کان سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن نعیم بھی پرانا پاپی تھا اور جان گیا تھا کہ سونیا سے اب مزا برداشت نہیں ہو رہا اور بہت زیادہ لطف محسوس کر رہی ھے تو اس نے سونیا کا ہاتھ بالوں سے نکالا اور اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اس کی انگلیوں میں پھنسا کر اس کے دونوں ہاتھوں کو  جکڑ لیا اور پھر سے اس کی گردن اور کانوں چومنے لگا اور ان پر زبان پھیرنے لگا ، اب کی بار سونیا کی سانسیں تیز اور بھاری ہو گئیں اور ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کا سانس پھول گیا ہو ، سونیا کے منہ سے مزے سے بھرپور ھلکی ھلکی کراہیں نکلنا شروع ہو گئیں اور نعیم اور جوش سے سونیا کی گردن کو چومنے لگا ، نعیم کا چھ سات انچ کا لمبا اور موٹا لن مکمل تناؤ کی حالت میں آ چکا تھا اور سونیا کی رانوں پر چب رہا تھا ، سونیا نعیم کا تگڑا لن اپنی پھدی کے اردگرد محسوس کر رہی تھی جس کی چبن  سے اس کی چوت مزید گیلی ہو رہی تھی

نعیم سونیا کی گردن سے نیچے چوما چاٹی کرتے ہوئے آیا تو سونیا کے جسم پر ابھی بھی قمیض تھی اس نے سونیا کی قمیض اتارنے کا سوچا لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گیا ، اس نے سونیا کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس کی برا میں سے اس کی لیفٹ چھاتی باہر نکال لی ، اور اس کی براؤن نپل پر زبان کو ٹچ کرنے لگا جس پر سونیا مزے سے تڑپ اٹھی ، نعیم نے اس کی نپل ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا جس سونیا کے منہ سے آہ ، آہ ، او ، اں جیسی جنسی آوازیں خودبخود نکلنا شروع ہو گئیں اور سونیا نعیم کا سر اپنی چھاتی کی طرف دبانے لگی ، سونیا اس وقت مزے کی دنیا کی سیر کر رہی تھی ، نعیم کا لن تو کافی دیر سے کھڑا ہو چکا تھا اب اس سے مزید برداشت نہیں ہو پا رہا تھا اسلئے اس نے سونیا کی چدائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ، نعیم نے اس کی چھاتی چوسنے کے بعد اس کی شلوار کھینچی اور اسکی شلوار گھٹنوں تک نیچے آگئی
نعیم نے سونیا کی شلوار کھینچی تو وہ گھٹنوں تک اتر گئی ، نعیم نے اس کی قمیض اس کی رانوں سے اٹھائی تو نیچے سونیا کی پھولی ہوئی چوت پر نعیم کی نظر پڑی جس کے لب آپس میں ملے ہوئے تھے  تو نعیم کا لن ایک جھٹکا کھا کر مزید تناؤ میں آ گیا اور سونیا کی چوت کو سلامی دینے کی لئے تیار تھا ، نعیم نے تازہ شیوڈ چوت دیکھی تو اس کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے اپنے لب سونیا کی چوت کے لبوں سے ملا دئیے اور اسکی چکنی چوت میں زبان ڈال دی ، سونیا ایک دم تڑپ اٹھی اور لطف و سرور کی بلندیوں پر پہنچ گئی ، نعیم نے اس کی گیلی چوت کا ذائقہ محسوس کیا اور اس کی چوت کے اندر زبان کرنا شروع کر دی ، نعیم کبھی تو اس کی چوت پر زبان پھیرتا اور کبھی زبان اندر کرتا جس سے سونیا کے منہ سے مزے سے بھرپور جنسی آوازیں نکلنا شروع ہو گئی – نعیم چھپر چھپر اس کی چوت چاٹ رہا تھا اور سونیا مزے سے بھرپور آوازیں نکال رہی تھیں ، چند منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ سونیا کی آواز میں تیزی اور جسم میں اکڑاہت آ گئی ، نعیم کو اندازہ ہو گیا کہ سونیا اب فارغ ہونے والی ھے
و اس نے سونیا کی چوت کے دانے کو دانتوں میں لے کر آہستہ سے کاٹا اور ایک دم زبان سونیا کی چوت میں ڈال دی سونیا کے منہ سے ایک تیز چیخ  نکلی اور پھدی سے پانی – نعیم نے اپنا چہرہ پیچھے کر لیا – سونیا آنکھیں بند کئے لیٹی مزے میں تھی ، نعیم اپنے کھڑے لن کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور وہاں پڑے ہوئے ایک کپڑے سے اپنا منہ صاف کیا اور سونیا کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا –
سونیا بہت خوش لگ رہی تھی یہ اس کی زندگی کا پہلا خوشگوار سیکسی تجربہ تھا –
تھوڑی دیر بعد نعیم نے اس کی چھاتی پر ہاتھ رکھا اور اس کی نپل پر انگلی گھمانے لگا ساتھ ہی اس کی چھاتی کو مٹھی میں لے کر دبانے لگا سونیا مدہوش ہونے لگی نعیم نے سونیا کی قمیض اتار دی ، سونیا کا برا اس کی چوچیوں سے نیچے تھا اور اس کی چوچیاں تنی ہوئی تھیں اور براؤن رنگ تھا ان کا – نعیم نے سونیا سے مزید تھوڑی جنسی چھیڑ چھاڑ  کی اور جب دیکھا کہ سونیا کی چوت گیلی ہو چکی ھے اور وہ خود بھی چدنے کے لئے تیار ھے تو نعیم نے خود کو بھی کپڑوں سے آزاد کیا اور سونیا کی ٹانگوں کے درمیان آ کر اس پر لیٹ گیا – سونیا کی چوت کو سلامی دینے کے لئے نعیم کا جاندار لن  تیار تھا
نعیم نے سونیا کی ٹانگوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں اوپر کیا اور اپنا لن سونیا کی پھدی کے لبوں کے درمیان اس کے سوراخ پر ایڈجسٹ کیا – سونیا آنے والے لمحات سے ڈری ہوئی تھی اس کے ذہن میں پہلا تجربہ تھا جو انتہائی تکلیف دہ تھا – نعیم نے لن اس کی پھدی پر ایڈجسٹ کرنے کے بعد سونیا سے کہا ، سونیا اندر جانے پر تمہیں درد ہو گا لیکن تم  اگر تھوڑی دیر یہ برداشت کر گئیں تو پھر مزا ہی مزا ہو گا-
سونیا نے اثبات میں سر ہلایا تو نعیم نے ایک ہلکا سا جھٹکا دیا تو سونیا کے منہ سے ایک درد بھری کراہ نکلی – نعیم کے لن کی ٹوپی سونیا کی گیلی چوت میں داخل ہو چکی تھی نعیم نے چند لمحے رک کر تھوڑا سا جھٹکا مارا  تو اس کا آدھا لن سونیا کی چوت میں چلا گیا اور سونیا درد سے بلبلا اٹھی  – سونیا نے نعیم سے کہا پلیز اسے باہر نکالو بہت درد ہو رہی ھے – نعیم جانتا تھا کہ ایک دفعہ باہر نکال لیا تو اس نے دوبارہ سے نہیں کرنے دینا –
نعیم نے سونیا سے کہا جان ! بس یہی چند لمحات تکلیف دہ ہیں بس تھوڑا برداشت کر لو  اپنے اس پولیس والے
کی خاطر درد کے بعد مزا آئے گا  ، نعیم نے نیچے سے حرکت روک دی اور اس کے مموں کو آہستہ آہستہ دبانے لگا اور ساتھ ساتھ اس کے گالوں ، آنکھوں اور ہونٹوں پر کس کرنے لگا ، اس دوران بیچ میں وہ سونیا سے آئی لو یو ، آئی لو یو بھی سونیا کے کانوں میں کہہ رہا تھا ، نعیم کے رکنے سے سونیا کے درد میں بھی کمی آ گئی تھی اس کے چومنے سے اور کانوں میں آئی لو یو کی تکرار سے اسے پھر سے مزا آنا شروع ہو گیا تھا حالانکہ نعیم کا شاندار طاقت سے بھرپور لن ابھی بھی آدھے سے زیادہ اس کی چوت میں تھا اور اس کی حرکت سے سونیا کی گانڈ پھٹ رہی تھی مطلب اسے درد ہو رہا تھا-
 نعیم نے خاص طور پر نیچے اپنے لن پر نظر ڈالی کہ اس پر خون ھے یا نہیں ؟ وہاں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا نعیم کو پتا چل گیا کہ سونیا کی پہلے سے ہی چدائی ہو چکی ھے اور اسے سونیا کی چوت کی تنگی سے یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ سونیا بہت زیادہ چدی  ہوئی نہیں ھے –
 نعیم نے آہستہ آہستہ اپنا لن باہر کرنا شروع کر دیا اور پھر جب ٹوپہ اس کی پھدی کے لبوں تک آیا تو نعیم نے اپنا تھوک اپنے لن پر گرایا اور پھر آہستہ آہستہ واپس چوت میں کرنا شروع کر دیا
اس دفعہ لن بہت ہی اھستگی سے سونیا کی چوت میں جا رہا تھا اور سونیا کو بہت کم درد ہو رہا تھا، آہستہ آہستہ لن سونیا کی پھدی کی گہرائیوں میں اتر رہا تھا اور بالآخر سارے کا سارا لن سونیا کی چوت میں چلا گیا، اس بار اتنا بڑا لن لینے کے باوجود بھی سونیا کے منہ سے کسی قسم کی آواز نہیں نکلی جو تھوڑا بہت درد تھا وہ برداشت کر گئی تھی – اسلئے تو کہتے ہیں کہ اگر عورت برداشت کرنے پہ آئے تو بہت کچھ برداشت کر لیتی ھے ورنہ تو چھوٹی چھوٹی بات پہ اس کی گانڈ پھٹ جاتی ھے –             نعیم نے اب دھیرے دھیرے  اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا ، سلو سپیڈ سے لن چوت میں اندر باہر والا سفر طے کر رہا تھا اور بتدریج اس کی سپیڈ میں اضافہ ہو رہا تھا ، سپیڈ بڑھنے سے سونیا کی چوت میں تکلیف ہونا شروع ہو گئی تھی ، اس کا بند منہ اب کھل گیا تھا اس کے منہ سے ھلکی ھلکی درد بھری کراہیں نکلنا شروع ہو گئی اور یہ کراہیں سپیڈ بڑھنے کے ساتھ ساتھ بلند ہو رہی تھیں –  ابھی تک درد ہی درد تھا مزا کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا – نعیم بھی سات آٹھ دن بعد کسی لڑکی کو چود رہا تھا
اور لڑکی بھی ایسی جس کی چوت بہت زیادہ ٹائیٹ تھی ،اسلئے  نعیم اپنی اصلی ٹائمنگ سے پہلے ہی ڈسچادج ہونے کے قریب پہنچنے لگا تھا  ، اس نے اپنی سپیڈ بڑھا دی – اب لن ایک دفعہ پورے کا پورا باہر آتا اور رگڑ مارتا ہوا چوت کی گہرائی میں غائب ہو جاتا ، آہ ، اں ، اف. . .  آہ . . . . آہ : .. جیسی درد بھری آوازیں سونیا کے منہ سے نکل رہی تھیں – نعیم کا لن بڑی روانی سے سونیا کی چوت کی سیر کر رہا تھا ، نعیم ایسے ہی سپیڈ سے آگے پیچھے کر رہا تھا اور اس کی منی اس کے ٹٹوں سے لن کی ٹوپی کی طرف سفر کرنا شروع ہو گئی ، اور چند سیکنڈ بعد لن کی ٹوپی سے نکل کر سونیا کی پھدی میں جا گری ، جس سے سونیا کی تکلیف میں کمی آ گئی منی سے لتھڑا ہوئے لن نے  تھوڑی دیر ہں  حرکت کی اور پھر سونیا کی چوت کی گہرائیوں کی سیر کرنے اور اسے اپنے پانی سے سیراب کرنے کے بعد باہر نکل آیا – سونیا نے فورپلے فل انجوائے کیا تھا لیکن چدائی میں اسے بالکل مزا نہیں آیا تھا یہ عمل تکلیف دہ تھا لیکن پہلی چدائی سے کم – آہستہ آہستہ یہ تکلیف بھی ختم ہو جانی ھے لیکن چدائی والا سلسلہ ختم نہیں ہونا،